تاریخی تناظر:

مذہبی اہمیت:

Hazrat Ali A.S Life Changing Quotes in Urdu
تقریبات اور رسومات:

وسیع تر مضمرات:

نتیجہ:

تجھے روز دکھوں قریب سے
میرے شوق بھی ہیں عجیب سے
میں نے مانگا ہے بس تجھی کو
اپنے رب اور اس کے حبیب سے
میری آنکھوں میں ہے بس عاجزی
میرے خواب بھی ہیں غریب سے
میرے صبح دکھوں کی دوا ہو تم
ملے کیا سکوں پھر طبیب سے
میں بھوت خوش ہوں جوڑ کر
نصیب اپنے تیرے نصیب سے
Top 50 English Life Changing Quotes
کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
طرب آشناۓ خروش ہو تو نواۓ محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آینہ ہے وہ آینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کن
نہ تری حکایت سوز میں، نہ مری حدیث گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو، ترے عفو بندا نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی مے تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
علامہ اقبال
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ، ہر خواہش پہ دم نکلے
بہوت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے، عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے ے ہیں، لیکن
بہوت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
Faiz Ahmad Faiz نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
مگر لکھواۓ کوئی اس کو خط، تو ہم سے لکھواۓ
ہوئی صبح، اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم ہم نکلے
ہوئی جن سے توقع، خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ سیتم نکلے
محبّت میں نہی ہے فرق، جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ وحدہ کی ہے
صف زاہداں ہے تو بے یقیں، صف میکشاں ہے تو بےطلب
نہ وہ صبح دردو وضو کی ہے، نہ وہ شام جامے شبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری کا گلا کریں
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے
Allama Iqbal R.A Poetry گونگی ہو گئی آج کچھ زبان کہتے کہتے علامہ اقبال
کف باغباں پہ بہار گل کا ہے کرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیر ہن، میں نمود میرے لہو کی ہے
نہیں خوف روز سیہ ہمیں، کہ ہے فیض ظرف نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اس آینہ رو کی ہے
Faiz Ahmad Faiz
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تحویز بنا لیں تم کو
پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چمبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں مے کوئی پھول چنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو
کیا عجیب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پے ہمیں پیار آتا ہے
اپنی باہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو
ہے تمہارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جاہیں ابھی مر کے مانا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی مور پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جو سمبھالیں تم کو
وصی شاہ