علامہ اقبال دلکش غزل
کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
طرب آشناۓ خروش ہو تو نواۓ محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آینہ ہے وہ آینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کن
نہ تری حکایت سوز میں، نہ مری حدیث گداز میں
Allama Iqbal Poetry مٹ جاے گناہوں کا تصور ہی جہاں سے اقبال
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو، ترے عفو بندا نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی مے تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
علامہ اقبال